کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان کی ایک مسجد میں دس سالہ لڑکی سے جنسی زیادتی کے الزام میں امام کو 20سال قید کی سزا سنادی گئی تاہم لڑکی کے ورثاءنے عدالتی فیصلے پر مایوسی کا اظہارکیا۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق افغان صوبہ کندوز سے تعلق رکھنے والے ملا محمد امین نے گذشتہ سال مئی اس دس سالہ بچی کا مسجد میں ریپ کیاتھا جس کے فوری بعد ایسے خدشات تھے کہ بچی کا خاندان اپنی عزت کی خاطر بچی کو مار ڈالے گا لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں نے مداخلت کر کے اس معاملے کو عدالت تک پہنچایا۔
ملزم کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیاگیا اورملا کے خلاف مقدمے کی کارروائی اس وقت ڈرامائی شکل اختیار کر گئی جب بچی نے روتے اور کانپتے ہوئے خود عدالت کے سامنے پیش ہو کر ملزم کا سامنا کیا۔
سرکاری وکیل مجاہد رائدن نے ملا کی جانب سے اقبالی بیان پڑھ کر سنایا مگر ملا امین نے اپنے دفاع میں بولتے ہوئے دعویٰ کیا کہ لڑکی نے انہیں ورغلایا جس پر لڑکی نے رونا بند کیا اور ڈرامائی انداز میں اپنا نقاب ہٹا کر ملا کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’او جھوٹے، جھوٹے خدا تم سے نفرت کرتا ہے تم غلیظ ہو، گندے ہو تم، تم ایک شیطان ہو۔
جج محمد سلیمان رسولی نے کہا کہ ملا امین کی جانب سے لڑکی کے ساتھ ریپ کا اعتراف زنا کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ لڑکی کی عمر بہت کم ہے اور انہوں نے وکلا ءکی جانب سے 100 کوڑوں کی سزا دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح تو پھر لڑکی کو بھی 100 کوڑے مارنے کی سزا دی جانی چاہیے،لڑکی زنا نہیں کر سکتی وہ ابھی بچی ہے یہ ریپ ہے۔
یاد رہے کہ اس قبل کندوز میں سرکردہ علما اور حکام نے لڑکی کی عمر کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی عمر 17 سال کے قریب ہے مگر ان کی والدہ کے مطابق ان کی عمر 10 جبکہ میڈیکل ایگزامنر نے ان کی عمر کو اندازاً 10 سے 11 سال بتایا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس خاندان کو عدالت میں آنے پر آمادہ کیا اور ان کے آنے جانے اور کابل میں رہائش کے اخراجات بھی برداشت کیے
عدالت کی جانب سے 20 سال قید کی سزا پر لڑکی ان کے والد اور چچا نے مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ملا محمد امین کو سزائے موت دی جانی چاہیے تھی۔
اس موقع پر انتہائی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق مقدمے کی کارروائی کے دوران لڑکی کے والد نے اپنی بیٹی کی جانب ایک بار بھی نہیں دیکھا اور اختتام پر انہوں نے اپنا منہ پھیرا اور چلے گئے جن کے پیچھے پیچھے لڑکی نے چلنا شروع کیا جہاں ملا امین زنجیروں میں جکڑا اپنی آنکھیں زمین پر ٹکائے کھڑا تھا۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق افغان صوبہ کندوز سے تعلق رکھنے والے ملا محمد امین نے گذشتہ سال مئی اس دس سالہ بچی کا مسجد میں ریپ کیاتھا جس کے فوری بعد ایسے خدشات تھے کہ بچی کا خاندان اپنی عزت کی خاطر بچی کو مار ڈالے گا لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں نے مداخلت کر کے اس معاملے کو عدالت تک پہنچایا۔
ملزم کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیاگیا اورملا کے خلاف مقدمے کی کارروائی اس وقت ڈرامائی شکل اختیار کر گئی جب بچی نے روتے اور کانپتے ہوئے خود عدالت کے سامنے پیش ہو کر ملزم کا سامنا کیا۔
سرکاری وکیل مجاہد رائدن نے ملا کی جانب سے اقبالی بیان پڑھ کر سنایا مگر ملا امین نے اپنے دفاع میں بولتے ہوئے دعویٰ کیا کہ لڑکی نے انہیں ورغلایا جس پر لڑکی نے رونا بند کیا اور ڈرامائی انداز میں اپنا نقاب ہٹا کر ملا کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’او جھوٹے، جھوٹے خدا تم سے نفرت کرتا ہے تم غلیظ ہو، گندے ہو تم، تم ایک شیطان ہو۔
جج محمد سلیمان رسولی نے کہا کہ ملا امین کی جانب سے لڑکی کے ساتھ ریپ کا اعتراف زنا کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ لڑکی کی عمر بہت کم ہے اور انہوں نے وکلا ءکی جانب سے 100 کوڑوں کی سزا دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح تو پھر لڑکی کو بھی 100 کوڑے مارنے کی سزا دی جانی چاہیے،لڑکی زنا نہیں کر سکتی وہ ابھی بچی ہے یہ ریپ ہے۔
یاد رہے کہ اس قبل کندوز میں سرکردہ علما اور حکام نے لڑکی کی عمر کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی عمر 17 سال کے قریب ہے مگر ان کی والدہ کے مطابق ان کی عمر 10 جبکہ میڈیکل ایگزامنر نے ان کی عمر کو اندازاً 10 سے 11 سال بتایا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس خاندان کو عدالت میں آنے پر آمادہ کیا اور ان کے آنے جانے اور کابل میں رہائش کے اخراجات بھی برداشت کیے
عدالت کی جانب سے 20 سال قید کی سزا پر لڑکی ان کے والد اور چچا نے مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ملا محمد امین کو سزائے موت دی جانی چاہیے تھی۔
اس موقع پر انتہائی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق مقدمے کی کارروائی کے دوران لڑکی کے والد نے اپنی بیٹی کی جانب ایک بار بھی نہیں دیکھا اور اختتام پر انہوں نے اپنا منہ پھیرا اور چلے گئے جن کے پیچھے پیچھے لڑکی نے چلنا شروع کیا جہاں ملا امین زنجیروں میں جکڑا اپنی آنکھیں زمین پر ٹکائے کھڑا تھا۔
0 comments:
Post a Comment