پیانگ یانگ (نیوز ڈیسک) کوریا کی رہنے والی لڑکی جو اکیس سال کی عمر میں لوٹ لی گئی تھی اپنے آبائی وطن شمالی کوریا کے خلاف لب کشائی کرتی نظر آتی ہے جو ایک ناقابل تصور ملک ہے لیکن خوش قسمتی سے وہ وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اپنی ایک جذباتی تقریر میں لیونمائی نامی لڑکی نے اپنی جرات مندانہ روداد سنائی اور وہاں قیام کے دوران اپنے اور اپنے اہل خانہ پر ہونے والے ظلموں کا پردہ چاک کیا اپنے وطن کو وہ دنیا کا تاریک ترین حصہ قرار دیتی ہوئے بتاتی ہے کہ اس ملک جیسا کوئی اور ملک نہ ہو گا ایک ایسا مقام جہاں انٹرنیٹ کے استعمال کے ساتھ ساتھ گانوں ، کتابوں ، بین الاقامی فون کالز اور اظہار رائے پر بھی پابندی ہے۔ ہفتے کے روز دوبئی میں ہونے والے ینگ ورلڈ سمٹ 2014ءمیں اس نے شمالی کوریا میں زندگی کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہاں کے لوگوںکی زندگی اس خوف میں گذرتی ہے کہ اگر انہوں نے اس ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھائی تو اس کے نتائج بہت برے ہوں گے۔ اس نے بتایا کہ وہ چین کی شمالی سرحد جو شمالی کوریا سے 850میل کے فاصلے پر واقع ہے
میں ایک سرد دریائی بندرگاہ ہائیسن میں 4اکتوبر 1993ءمیں پیدا ہوئی جہاں اسے پیدا ہوتے ہی اغواء کر لیا گیا جب اسے دنیا کی آزادی اور بنیادی حقوق کے بارے میں کچھ علم نہ تھا وہ کہتی ہے کہ کسی انسان کو اس کی جائے پیدائش کی وجہ سے ظلم کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا اس نے کہا کہ ہمارے وطن میں صرف ایک ہی ٹی وی چینل آن ائیر ہوتا ہے جسے صرف پراپوگینڈا کی خاطر استعمال کیا جاتا آج شمالی کوریا کے لوگوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جب میں جوان ہو رہی تھی تو مجھے مرد اور عورت کی پریم کہانیوں کا کچھ علم نہ تھا وہاں کوئی رومیو اور جیولیٹ نہ تھے جب وہ نوسال کی تھی تو اس کی ایک دوست کی ماں کو گولی مار دی گئی جس کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے ہالی وڈ کی فلم دیکھ لی تھی اس نے چار سال کی عمر میں زندگی کا اہم سبق سیکھ لیا تھا اور یہ بہادر مفرور لڑکی اپنا بچپن بھی یاد نہیں کر سکتی تھی کہ کہیں حکمران اس کا دماغ نہ پڑھ لیں اس نے وضاحت کی کہ کس طرح آمر حکمرانوں پر تنقید کے نتیجے میں ایک خاندان کی تین نسلوں کو جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی یا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا یا ہلاک کر دیا جاتا اسی اثناءمیں اس کی آزادی کا راستہ پر تشدد تھا جیسا کہ اس نے صحرائے گوبی کے راستے اپنی فرار کی داستان سنائی اور کہا کہ ہم نے خود کو ہلاک کرنے کی تیاری کر لی تھی اگر ہم راستے میں پکڑے جاتے تو ہمیں واپس بھیج دیا جاتا۔اپنی تقریر کے دوران ایک جگہ اس نے اپنے باپ کی موت کو یاد کیا کہ وہ کس طرح چھپ کر اپنے باپ کو دفنانے پر مجبور تھی اور اس وقت صبح کے تین بج رہے تھے اور وہ اپنے باپ کی موت پر اشک بھی بہا نہ سکی۔ اس نے کہا کہ میں بہت زیادہ ڈر گئی تھی کہ مجھے واپس شمالی کوریا بھیج دیا جائے گا اسے یہ المناک منظر بھی یاد تھا کہ جب وہ تیرہ برس کی تھی اور اس کی ماں کہہ رہی تھی کہ میری بیٹی کی بجائے مجھے بے آبرو کر دو، کیونکہ موت کے خوف سے لیونمائی صحرا سے گذر گئی اور وہ مناظر یاد کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ رونے لگی مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اس دنیا میں صرف آسمان کے ستاروں کے علاوہ میرا اور کوئی مونس نہیں بعد میں اس نے وہاں موجود شخصیات کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اسے یہاں اپنی کہانی سنانے کا موقع دیا۔
میں ایک سرد دریائی بندرگاہ ہائیسن میں 4اکتوبر 1993ءمیں پیدا ہوئی جہاں اسے پیدا ہوتے ہی اغواء کر لیا گیا جب اسے دنیا کی آزادی اور بنیادی حقوق کے بارے میں کچھ علم نہ تھا وہ کہتی ہے کہ کسی انسان کو اس کی جائے پیدائش کی وجہ سے ظلم کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا اس نے کہا کہ ہمارے وطن میں صرف ایک ہی ٹی وی چینل آن ائیر ہوتا ہے جسے صرف پراپوگینڈا کی خاطر استعمال کیا جاتا آج شمالی کوریا کے لوگوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جب میں جوان ہو رہی تھی تو مجھے مرد اور عورت کی پریم کہانیوں کا کچھ علم نہ تھا وہاں کوئی رومیو اور جیولیٹ نہ تھے جب وہ نوسال کی تھی تو اس کی ایک دوست کی ماں کو گولی مار دی گئی جس کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے ہالی وڈ کی فلم دیکھ لی تھی اس نے چار سال کی عمر میں زندگی کا اہم سبق سیکھ لیا تھا اور یہ بہادر مفرور لڑکی اپنا بچپن بھی یاد نہیں کر سکتی تھی کہ کہیں حکمران اس کا دماغ نہ پڑھ لیں اس نے وضاحت کی کہ کس طرح آمر حکمرانوں پر تنقید کے نتیجے میں ایک خاندان کی تین نسلوں کو جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی یا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا یا ہلاک کر دیا جاتا اسی اثناءمیں اس کی آزادی کا راستہ پر تشدد تھا جیسا کہ اس نے صحرائے گوبی کے راستے اپنی فرار کی داستان سنائی اور کہا کہ ہم نے خود کو ہلاک کرنے کی تیاری کر لی تھی اگر ہم راستے میں پکڑے جاتے تو ہمیں واپس بھیج دیا جاتا۔اپنی تقریر کے دوران ایک جگہ اس نے اپنے باپ کی موت کو یاد کیا کہ وہ کس طرح چھپ کر اپنے باپ کو دفنانے پر مجبور تھی اور اس وقت صبح کے تین بج رہے تھے اور وہ اپنے باپ کی موت پر اشک بھی بہا نہ سکی۔ اس نے کہا کہ میں بہت زیادہ ڈر گئی تھی کہ مجھے واپس شمالی کوریا بھیج دیا جائے گا اسے یہ المناک منظر بھی یاد تھا کہ جب وہ تیرہ برس کی تھی اور اس کی ماں کہہ رہی تھی کہ میری بیٹی کی بجائے مجھے بے آبرو کر دو، کیونکہ موت کے خوف سے لیونمائی صحرا سے گذر گئی اور وہ مناظر یاد کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ رونے لگی مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اس دنیا میں صرف آسمان کے ستاروں کے علاوہ میرا اور کوئی مونس نہیں بعد میں اس نے وہاں موجود شخصیات کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اسے یہاں اپنی کہانی سنانے کا موقع دیا۔
0 comments:
Post a Comment