مبینہ جرم کے وقت ریحانہ کی عمر 19 سال تھی اور سات سال کی قید کے بعد جب اسے پھانسی دی گئی تو وہ 26 سال کی ہوچکی تھی۔ اس کا موقف تھا کہ سرکاری اہلکار نے کاروباری ملاقات کے بہانے اسے اپنے دفتر میں بلایا تھا اور اس کے بعد اس کی عصمت دری کی کوشش کی جس پر اس نے چاقو کا وار کرکے اسے زخمی کردیا تھا جس کے نتیجے میں اس کی موت ہوگئی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نامی تنظیم سمیت دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے مقدمے کی کارروائی میں خامیوں کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ اعتراف جرم کروانے کیلئے بدترین تشدد اور ذہنی دباﺅ کا استعمال کیا گیا۔ ریحانہ کی پھانسی کو متعدد بار ملتوی کیا گیا لیکن مقتول کے ورثاءنے اسے معاف کرنے سے انکار کردیا جس پر گزشتہ روز سرکاری اہلکاروں نے اس کی ماں کو فون کرکے بتایا کہ وہ بیٹی سے آخری ملاقات کرلے جس کے بعد آج علی الصبح اسے پھانسی دے دی گئی۔ انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے یہ سوال شدت کے ساتھ اٹھایا جارہا ہے کہ کیا عزت بچانے کیلئے قتل کرنے والی خاتون کا ایک متنازعہ مقدمے کے نتیجے میں سزائے موت دینا انصاف کہلائے گا؟

0 comments:
Post a Comment